ابنا: سینئر صحافی حامد میر نے بلوچستان کی صحافی برادری کی جانب سے یکجہتی کے اظہار پر تشکر کرتے ہوئے کہا کہ زخم دریدہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملے، تشدد زدہ لاشیں ملنے اور یہاں ظلم و جبر کی پالیسیوں پر لب کشائی پر مجھے ہدف بنایا گیا۔ مجھے اس پر کوئی افسوس اور ندامت نہیں، بلکہ فخر ہے۔ یہ حملہ صرف میری ذات پر نہیں بلکہ آزادی صحافت پر حملہ تھا۔ بلوچستان کے لوگوں نے جس طرح میرے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اس پر نہ صرف ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، بلکہ ان کی محبتوں کے اظہار میں موجود درد کو بھی محسوس کرتا ہوں۔ اگر کوئی چھ گولیاں میرے جسم میں اتار کر سمجھتا ہے کہ ظلم و جبر کے خلاف لب کشائی نہیں کرونگا۔ تو اس کی غلط فہمی ہے۔ چھ کے بجائے آئندہ میرے سر میں بارہ گولیاں بھی مار دی جائیں تو میری آواز تو خاموش ہو سکتی ہے لیکن سینکڑوں حامد میر پیدا ہونگے۔ تقریب میں بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کوئٹہ کی بڑی تعداد موجود تھی جبکہ سیاسی جماعتوں کے رہنما اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ کراچی میں ہونے والے حملے کی بہت سے وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ بلوچستان کے ایشوز پر زیادہ لب کشائی کرنا بھی تھا۔ خاص طور پر یہاں لوگوں کو ماورائے آئین و قانون لاپتہ کئے جانے، تشدد زدہ لاشیں پھینکنے جیسے واقعات اور ظلم و تشدد کی دہری پالیسیوں پر ہمیشہ کھل کر اظہار کیا۔ بلوچستان کے سنجیدہ لوگوں کے ساتھ کلمہ حق بلند کیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ جب خضدار پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عبدالحق کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا تو اس کا تعلق جنگ اور جیو سے نہیں تھا۔ اس کے بعد خضدار پریس کلب کے صدر جواں سال صاحبزادوں کو قتل کیا گیا۔ تو خضدار پریس کلب کے صدر کا تعلق بھی جنگ اور جیو سے نہیں۔ اس کے بعد میں نے خضدار کا دورہ کیا اور وہاں میرے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے ہر ذی شعور شخص واقف ہے۔ مجھے اسی وقت یہ پیغام دے دیا گیا تھا کہ اگر اس کے بعد بھی بلوچستان یا لاپتہ افراد کے معاملات پر بات کی تو اس کا انجام برا ہو گا۔
حامد میر کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہزارہ برادری اور یہاں کے بلوچوں کے ساتھ جو اداروں کی جانب ڈبل گیم کھیلی جا رہی ہے، اس کو بےنقاب کرنے پر نہ صرف مجھے ہدف بنایا گیا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان سمیت ملک کے مختلف حصوں میں صحافیوں کو نشانہ بناتا رہا۔ انہیں ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔ بلوچستان میں بلوچ، پشتون، ہزارہ اور یہاں بسنے والی دیگر اقوام کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کو بےنقاب کرنے پر مجھے نشانہ بنایا گیا اور کیا ستم ظریفی ہے کہ اس ملک میں کبھی آئین توڑنے والوں نے معافی نہیں مانگی لیکن اگر کسی صحافی پر حملہ ہوتا ہے تو وہ حملہ کرنے والوں کا نام لیتا ہے تو اس صحافی اور اس کی ادارے کو معافی مانگنے پر کسی طرح مجبور کیا جاتا ہے لیکن میں ان قوتوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ گولیاں اور حملے ہمارے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے۔ انشاءاللہ آئندہ بھی آزادی صحافت کا پرچم بلند رکھیں گئے۔ بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرتے رہینگے۔ میں یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری لڑائی کسی ادارے کے ساتھ نہیں اور نہ ہی میں ذاتی طور پر کسی ادارے کے خلاف ہوں۔ نہ ہی کسی ادارے کے ساتھ جنگ میری زندگی کا مقصد ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔ ہم پاکستان میں امن و استحکام کے خواہاں ہیں اور اس کیلئے ہم اپنا ہر ممکن کردار ادا کرتے رہینگے۔ کسی طرح بھی ظلم و ستم کو برداشت نہیں کرینگے۔ گولیاں مارنے والوں نے اب کی بار چھ گولیاں ماری ہے لیکن آئندہ میرے سر پر 12 گولیاں مار دیں۔ ممکن ہے میری آواز خاموش ہو جائے لیکن اس کے بعد میں سینکڑوں حامد میر پیدا ہونگے، جو ظلم اور جبر کے خلاف آواز اٹھاتے رہینگے۔
انہوں نے کہا کہ آج صرف ایک ادارے کی بندش کا مسئلہ نہیں بلکہ اگر ایک ادارہ بند ہوا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ یہاں تک نہیں رکے گا بلکہ دیگر ادارے بھی اس کی زد میں آ سکتے ہیں اور اس سے ہمارے ورکنگ جرنلسٹس بےروزگار ہونگے۔ اس کے اثرات پوری میڈیا انڈسٹری پر پڑیں گے، جو یقیناً نیک شگون نہیں۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ آزادی صحافت کا دشمن چالاک عیار اور مکار ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ آج کل تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ کیبل آپریٹرز اور اخبار فروشان زیادتی کر رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں جو قوتیں ہمیں نشانہ بنا سکتی ہیں وہ ان مظلوموں کو بھی نشانہ بنانے میں دیر نہیں کرینگی اور ان سے یہ کام کسی دباؤ کے تحت کرایا جا رہا ہے لیکن آج وقت کا تقاضا یہ ہے کہ کیبل آپریٹرز ہوں، اخبار فروش صحافی یا میڈیا ہاؤس مالکان ہم سب کو متحد و متفق ہونا ہو گا کیونکہ یہ کسی ایک ادارے کی بقاء کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام میڈیا ہاؤسز اور آزادی صحافت کی بقا کا مسئلہ ہے۔
.......
/169